آلِ احمد سرور ۔۔۔ فانی: شخصیت اور شاعری

شوکت علی خاں فانی بدایونی کی تاریخ پیدائش۱۳؍ ستمبر ۱۸۷۹ء ہے۔ ان کے انتقال کو اڑتالیس سال ہونے کو آئے۔ (تاریخ وفات ۲۲؍اگست ۱۹۴۱ء) اپنے دور میں فانی خاصے مقبول تھے۔ ان کے انتقال کے بعد فانی کے خلاف بھی بہت کچھ کہا گیا۔ آج فانی کو کچھ لوگ بھولتے جارہے ہیں۔ بہر حال فانی کی شاعری کے ازسرِنو مطالعے، ان کے ادبی کارنامے کی پرکھ، ان کی معنویت کے تعین کی ضرورت مسلم ہے۔ یہ مقالہ اسی سلسلے کی ایک حقیر کوشش ہے۔

ظاہر ہے کہ فانی کو سمجھنے کے لئے سب سے زیادہ اہمیت ان کے کلام کی ہے۔ مگر چوں کہ فانی کی شخصیت اور ان کی شاعری میں حیرت انگیز وحدت ملتی ہے اس لئے ان کی شخصیت کے عرفان کے بغیر ان کی شاعری کا عرفان ممکن نہیں ہے۔ پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ فانی کے مطالعے کے لئے اس تہذیبی اور ادبی ماحول کو سمجھنا ضروری ہے جس میں شاعر نے آنکھ کھولی اور جس نے ان کے شاعرانہ مزاج کی تربیت کی۔ اس لئے فانی کا مطالعہ ایک ادبی تناظر کا بھی مطالبہ کرتا ہے اور چوں کہ اس تہذیبی اور ادبی روایت سے آج کا ماحول خاصا مختلف ہوگیا ہے اس لئے داغ ہائے سینہ کو تازہ رکھنے کے لئے ایک قصۂ پارینہ کی باز خوانی بھی ضروری ہے۔

فانی کو جو تہذیب ورثے میں ملی اس میں دولت خرچ کرنے کے لئے تھی۔ زمیندار کا مقصد زمین اور کاشتکاری کی دیکھ بھال نہیں زمین کی آمدنی سے شہروں اور قصبوں میں ایک خوش حال زندگی بسر کرنا تھا۔ وہ افغانی النسل تھے۔ پرکھوں کی جائیداد بہت کم رہ گئی تھی یہاں تک کہ والد پولیس کی ملازمت پر مجبور ہو گئے تھے۔ ان افغانوں میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کا جذبہ تھا۔ تلوار عرصہ ہوا ہاتھ سے چھوٹ چکی تھی، دولت جا رہی تھی۔ مگر وضعداری کی قدر گلے کا ہار تھی۔ یہ ایک مذہبی ماحول تھا۔ اس میں تصوف سے ایک لگاؤ تھا اور شاعری جو فنِ شریف سمجھتی جاتی تھی ایک تہذیبی اور مجلسی صفت تھی۔ چوں کہ اس کے سامنے زندگی کا کوئی بڑا تصور نہ تھا اس لئے رکھ رکھاؤ میں، معاشرت میں، تہذیب میں، نفرت و محبت میں، استغنا اور بے نیازی میں ایک آن تھی۔

خاندان کی ناک کا سوال اہم تھا اور والدین کی مرضی خدا کی مرضی تھی۔ سماجی قوانین، مذہبی قوانین، اخلاقی قوانین خاصے سخت تھے۔ انہیں کے اندر کھل کھیلنے کی جازت تو تھی مگر ان سے کھلم کھلا بغاوت کا سوال نہ تھا۔ مغربی اثرات جو مغربی حکومت کے ذریعہ سے آئے تھے، دل سے قبول نہ تھے، ہاں ان سے ایک سمجھوتا تھا کہ دنیوی ترقی کی راہ میں معاون تھے۔ ویسے زندگی کا دھارا خاصے سکون سے بہتا تھا کیوں کہ ملک میں بڑی حد تک امن و امان تھا، مگر ذہنوں میں ایک احساسِ شکست، ایک تہذیبی سورج کے ڈوبنے کا ماتم، ایک بساط کے لٹنے کا غم ضرور تھا۔ شاعری میں حالیؔ اور آزاد کے ترانے گویا ان لوگوں کے لئے ان سنے تھے۔ امیرؔ اور داغؔ کا طوطی بول رہا تھا مگر غالبؔ کے کچھ فدائی بھی موجود تھے اور غالبؔ کا رنگ بھی ان کے سہارے اپنے جلوے دکھا جاتا تھا۔

مشاعرے گھر گھر ہوتے تھے۔ عرسوں کی بھی کثرت تھی جن میں نعت اور منقبت کا رواج تھا۔ زر۔ زن۔ زمین کے قضیے بھی زندگی کے معمولات میں شامل تھے۔ شاعری کی قدر تھی گو شاعری منفعت کا ذریعہ نہ تھی مگر شاعر کو سماج میں عزت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ قصائد زیادہ تر بزرگان دین کی شان میں لکھے جاتے تھے، یا پھر امراء اور اہل ثروت کی شان میں۔ غزل سب سے زیادہ مقبول صنفِ شاعری تھی اس لئے کہ اس میں اس تہذیب کی سبھی محبوب قدروں کی امانت کی گنجائش تھی۔ لطافت، کچھ نہ کہنے میں بہت کچھ کہہ جانا، تضادات کا لطف، لفظوں کا کھیل، حقیقت اور مجاز کی آنکھ مچولی، نقاب اور حجاب میں تخیل کے لئے محرکات، وفاداری کسی مسلک یا کسی آئیڈیل سے یا مشن سے، جفائیں زندگی کی یا محبوب کی۔

زندگی کی بے ثباتی کے احساس کی وجہ اس کی لذتوں کی دلنواز یادیں، ایک رنگین ماضی کا دھندلکا، مستقبل سے ایک مبہم خوف، زبان میں ایک روانی، لفظی مناسبتوں کے ایک احساس اور محاورے اور روز مرہ کی ایک چاشنی کی کشش، تفصیل کے بجائے اجمال، صراحت کے بجائے اشارے اور کنایے، تنظیم کے بجائے ایک کیفیت سے دوسری تک جست، ظاہری عجز و انکساری کے پیچھے ایک انانیت اور اپنی عظمت اور انفرادیت کا احساس۔ یہ تھی وہ تہذیبی اور ادبی بساط، جو فانیؔ کو ورثے میں ملی اور جس میں ان کی شاعری پروان چڑھی۔

فانی کے والد بڑے سخت گیر تھے۔ فانیؔ کو اپنے پہلے عشق میں ناکامی ہوئی۔ ملازمت انہیں راس نہ آئی۔ ان کے والد ان کی شاعری کے بہت خلاف تھے۔ انہیں کچھ آزادی بریلی کالج میں ملی، مگر در اصل ان کی ادبی شخصیت علی گڑھ کے قیام کے زمانے میں بنی جب وہ حسرت اور ان کی اردوئے معلیٰ سے قریب آئے۔ انہوں نے ملازمت پر وکالت کو ترجیح دی جس طرح اقبالؔ نے دی۔ اقبالؔ کو بھی اپنا پیشہ پسند نہ تھا، مگر وہ فانیؔ سے زیادہ لطافت کی خاطر کثافت کو گوارا کر سکتے تھے۔ فانیؔ اچھے وکیل ہو سکتے تھے کیوں کہ وہ ذہین آدمی تھے، مگر ان کی شاعرانہ شخصیت ان پر اتنی حاوی ہو گئی تھی کہ وہ وکالت کے پیشے کی پستی اور زمانہ سازی گوارا نہ کر سکتے تھے۔ ایک شاہانہ انداز سے زندگی گزارنے میں انہیں لطف آتا تھا۔ کلکتے اور بمبئی کے سفر، لکھنؤ میں کچھ دن کے ٹھاٹھ، حیدرآباد میں شروع میں ان کی فضول خرچیاں، فانیؔ کے مزاج کے ایک خاص پہلو کو ظاہر کرتی ہیں۔

فانی کو ادبی شہرت جلد حاصل ہو گئی اور آخر تک وہ معاصرین میں ممتاز رہے۔ لکھنؤ، اٹاوے، مین پوری علی گڑھ اور آگرے میں مشاعروں میں ان کی غزلیں حاصل مشاعرہ سمجھی جاتی تھیں جبکہ ان میں یگانہ، جگر جیسے قابلِ قدر شاعر بھی موجود ہوتے تھے۔ ان کی ادبی شہرت ۱۹۲۰ء سے شروع ہوئی اور ۱۹۳۰ء میں وہ عروج کو پہنچ گئی۔ دیوانِ فانی نقیب پریس بدایوں سے ۱۹۲۱ء میں، باقیاتِ فانیؔ آگرہ اخبار پریس سے ۱۹۲۶ء میں، عرفانیاتِ فانیؔ جس میں باقیات اور اس کے بعد کاکلام شامل ہے، انجمن ترقی اردو ہند دہلی سے ۱۹۳۹ء میں اور وجدانیات کے نام سے ایک مختصر مجموعہ ۱۹۴۰ء میں شائع ہوا۔ فانیؔ پرگونہ تھے۔ ماہر القادری کا بیان ہے کہ ان کی غزل کئی کئی دن میں مکمل ہوتی تھی۔ ان کے تمام دوستوں نے بیان کیا ہے کہ ان پر ایک استغراق کی کیفیت طاری رہتی تھی۔ ان کی مایوسیوں اور ناکامیوں، تلخیوں اور محرومیوں کی داستان ان کے چہرے پر لکھی ہوئی تھی۔

فراق نے ان کی تصویر کے متعلق کہا ہے کہ ’’شاید ہی کسی شاعر کی تصویر میں اتنی نشتریت ہو۔‘‘ ان کے پڑھنے کے انداز میں بھی ایک انفرادیت تھی۔ آواز بلند نہ تھی مگر اس میں لحن بھی تھا اور سوز بھی۔ میں نے آگرے کے ایک مشاعرے میں انہیں پڑھتے سنا ہے اور یہ محسوس کیا ہے کہ ان کی آواز نشتر کی طرح دل میں اترتی جا رہی ہے۔ ان کی غالباً آخری غزل بھوپال کے مشاعرے کی تھی جو نشر ہوئی تھی۔ یہ غزل اس وقت ذہن میں محفوظ رہ گئی تھی اور آج تک ہے۔ فراقؔ نے بھی اس کا ذکر کیا ہے:

جب پرسشِ حال وہ فرماتے ہیں جانیے کیا ہو جاتا ہے

کچھ یوں بھی زباں نہیں کھلتی کچھ درد سوا ہو جاتا ہے

یکتائے زمانہ ہونے پر صاحب یہ غرور خدائی کا

سب کچھ ہو مگر خاکم بدہن کیا کوئی خدا ہوجاتا ہے

اب خیر سے ان کی بزم کا اتنا رنگ تو بدلا میرے بعد

جب نام مراا ٓجاتا ہے، کچھ ذکرِ وفا ہو جاتا ہے

قطرہ قطرہ رہتا ہے، دریا سے جدا رہ سکنے تک

جو تاب جدائی لا نہ سکے وہ قطرہ فنا ہوجاتا ہے

پھر دل سے فانیؔ سارے کے سارے رنج و الم مٹ جاتے ہیں

جس وقت وہ ظالم سامنے آکر جانِ حیا ہوجاتا ہے

مطلع میں فانی کے مزاج کی سچی تصویر ملتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ میر کے ایک مشہور شعر کی طرف بھی دھیان جاتا ہے:

کہتے تو ہو، یہ کہتے، یہ کہتے، جو وہ کرتا

سب کہنے کی باتیں ہیں کچھ بھی نہ کہا جاتا

فانیؔ بہت پریشاں رہے مگر انہوں نے کبھی کسی سے ان پریشانیوں کا اظہار نہ کیا۔ جب وہ بدایوں میں اپنے ایک وسیع اور کشادہ مکان کو رہن رکھ رہے تھے تو ان کے ایک ملنے والے آگئے اور انہوں نے تازہ کلام کی فرمایش کی۔ فانیؔ نے انہیں اپنا ایک شعر یہ کہہ کر سنایا کہ آج ہی موزوں ہوا ہے:

اپنے دیوانے پہ اتمامِ کرم کر یارب

درو دیوار دیے اب انہیں ویرانی دے

ڈاکٹر یوسف حسین خاں نے ’’یادوں کی دنیا‘‘ میں لکھا ہے کہ جب قاضی محمد حسین سے جو اس وقت عثمانیہ یونیورسٹی میں وائس چانسلر تھے، یونیورسٹی کی ایک جگہ کے سلسلے میں ان کے احباب نے ان سے ملاقات کرائی اور قاضی صاحب نے جو ریاضی کے آدمی تھی، ان سے ان کی صلاحیتوں کے متعلق دریافت کیا تو فانیؔ صرف یہی کہہ سکے کہ شعر کہتا ہوں۔ بعد میں انہوں نے ڈاکٹر یوسف حسین خاں سے بیان کیا کہ جتنی دیر میں قاضی صاحب کے کمرے میں رہا مجھے یہی محسوس ہوتا رہا کہ میری عقل زائل ہو رہی ہے۔ فانیؔ کشن پرشاد شاد کے اس لئے قائل تھے کہ وہ شاعر کی عظمت کو پہچانتے تھے۔ انہیں کے معاصرین میں یگانہؔ بھی تھے جو پڑھتے وقت بھی خود اپنی رانوں پر ہاتھ مارتے جاتے تھے، گویا اپنی شراب سے خود مست ہوکر دوسروں کو مست ہونے پر مجبور کرتے تھے۔ انہوں نے اپنے اور اپنے معاصرین کے متعلق جس انداز میں اظہار خیال کیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے اندر کوئی احساسِ کمتری ضرور تھا۔ یگانہؔ پڑھتے تھے تو معلوم ہوتا تھا کہ وہ سننے والے کو متوجہ کر رہے ہیں کہ سنو اور سردھنو۔ فانیؔ سننے والے سے بے نیاز اپنی حزیں لے میں نشتر زنی کرتے جاتے تھے۔

اردو کا شاعر کم از کم مقطعوں میں تو ضرور تعلی کرتا ہے، مجھے تلاش سے صرف فانیؔ کے ابتدائی کلام میں ایک مقطع ایسا ملا جس میں انہوں نے اپنے متعلق ہلکی سی تعلی کی ہے:

خدا شاہد ہے، عالی ہے ترا ذہنِ رسا فانیؔ

بہت کم سست پایا شعر میں نے ترے دیواں میں

بہت کم شاعر ہوں گے جنہوں نے اس طرح صرف شاعری کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا ہو اور ذہانت اور علمی و ادبی صلاحیت کے باوجود، دوسرے کاموں یہاں تک کہ فکرِ معاش کی طرف سے بھی اس قدر بے نیازی برتی ہو۔ ماہر القادری نے لکھا ہے کہ فانیؔ نے ان سے ایک دفعہ کہا کہ میں کچہری اور پاخانہ بالکل مجبوری کے عالم میں جاتاہوں، میکش، وحید احمد اور حکیم مختار احمد نے تصدیق کی ہے کہ اکثر مقدموں کی تیاری یا کچہری کا وقت ادبی مجلسوں کی نذر ہوجاتا۔ ایک دفعہ گرمی سخت تھی۔ کچہری جانے کے لئے گھر سے باہر نکلے اور دھوپ کی تمازت دیکھ کر العظمت للہ کہا اور پھر الٹے پاؤں لوٹ گئے۔ گرائی نے بھی ایک دفعہ یہ کہہ کر اپنا سفر ملتوی کردیا تھا کہ تانگہ گرم ہو گیا ہے۔ ان کے ابتدائی کلام میں ایک اور شعر ایسا ہے جس میں انہوں نے اپنے پسندیدہ شغل کا ذکر کیا ہے:

فانیؔ ہے فکرِ شعر و سخن رات دن مجھے

چرچا یہی پسند، یہی گفتگو پسند

وہ اگرچہ ہنگامے سے گھبراتے تھے اور نمود و نمایش سے دور بھاگتے تھے مگر دوستوں کی محفل میں ہنستے بولتے بھی تھے۔ گو کسی نے انہیں قہقہہ لگاتے نہیں سنا۔ دوسروں کے کلام کی تعریف کرتے تھے مگر ان اشعار کی، جو انہیں پسند آتے تھے۔ جب ماہرالقادری نے ان کی اس غزل کی تعریف کی جس کا مطلع ہے:

پھر فریبِ سادگی ہے رہ نمائے کوئے دوست

مٹنے والی آرزو ہی لے چلیں پھر سوئے دوست

تو کہنے لگے لیکن آتشؔ کے اس مصرعے کا جواب کہاں

دل سوا شیشے سے نازک دل سے نازک خوئے دوست

ان کی ایک مشہور غزل ہے۔ دنیا میری بلا جانے مہنگی ہے یا سستی ہے۔ اس کے اس شعر پر جب بہت تعریف ہوئی۔

آنسو تھے سو خشک ہوئے جی ہے کہ امڈا آتا ہے

دل پہ گھٹا سی چھائی ہے کھلتی ہے نہ برستی ہے

تو انہوں نے کہا، مگر یاسؔ نے یہ قافیہ خوب باندھا ہے۔

چتونوں سے ملتا ہے کچھ سراغ باطن کا

چال سے تو ظالم پر سادگی برستی ہے

ماہر القادری نے ایک اور واقعہ کا ذکر کیا ہے۔ پڑوس میں ریڈیو تھا۔ کہیں سے کوی مشاعرہ نشر ہورہا تھا۔ فانیؔ وہاں پہنچے۔ جگرؔ کی غزل سنی اور کئی اشعار پر رانوں پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔ ارے ظالم مار ڈالا۔ جب غزل ختم ہوئی تو اٹھ کھڑے ہوئے۔ لوگوں نے کہا مشاعرہ تو ابھی جاری ہے مگر وہ یہ کہتے ہوئے چلے ’’مشاعرہ تو ہو چکا۔‘‘ یہی نہیں کہ فانیؔ کے مزاج میں تعلی بالکل نہ تھی۔ وہ اس زمانے کے تہذیبی اور مجلسی آداب کے مطابق اپنے اور اپنے کلام کے متعلق ایسے انکسار سے کام لیتے تھے کہ آج کے ظاہربین اس سے غلط فہمی میں مبتلا ہوجائیں تو تعجب کی بات نہ ہوگی۔

۱۹۲۲ء میں علی گڑھ میگزین کے ایڈیٹر رشید احمد صدیقی کو غزل کی فرمایش پر لکھا ہے، ’’میری بکواس نہ پڑھنے کے لائق ہے نہ سننے کے قابل۔ دامن اردو پر ایک بدنما داغ کے سوا کچھ نہیں۔ کوشش کیجئے کہ مٹ جائے۔ یہ آپ کا پہلا فرض ہے۔ میگزین کے بیش بہا صفحات پر میری غزل کا وجود باعثِ ننگ ہے۔ زبان اردو کے نادان دوست نہ بنیے۔’‘ یہ انکسار اس زمانے میں شرفاء کا دستور تھا۔ غالباً اس کے پیچھے یہ جذبہ تھا کہ اپنی تعریف آپ کرنا معیوب ہے۔ ہاں دوسرے تعریف کریں تو اور بات ہے۔ اس سلسلے میں ایک لطیفہ شاید بے محل نہ ہو۔

ایک انگریز افسر نے اپنی ملازمت کے دوران کسی منشی سے فارسی اور اردو پڑھی۔ جاتے وقت ان سے کہا کہ میں تمہارے لئے کیا کرسکتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے ایک سرٹیفکیٹ دیجیے تاکہ کوئی دوسرا افسر آئے تو اسے بھی پڑھا سکوں۔ چنانچہ ان انگریز افسر نے ایک سرٹیفکیٹ دیا جس میں ان کی علمی قابلیت کی بڑی تعریف کی تھی۔ اس سرٹیفکیٹ کو لے کر یہ منشی جی نئے افسر کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اس نے پڑھ کر ان سے کہا کہ صاحب نے تمہاری بڑی تعریف کی ہے۔ تم بڑا قابل ہے۔ انہوں نے حسبِ دستور جواب دیا کہ یہ صاحب کی ذرّہ نوازی ہے، میں کس قابل ہوں۔ انگریز افسر یہ سمجھا کہ منشی جی نے پرانے افسر کو دھوکہ دیا ہے اور حقیقت اب ظاہر ہوئی ہے۔ اس نے اس پرانے افسر کو لکھا کہ منشی تو خود اپنی نالایقی کا اعتراف کرتاہے۔ تم کیسے اس کی تعریف کرتے ہو۔ تب اسے یہ جواب ملا کہ وہ واقعی بہت قابل ہے۔ یہ صرف اس علاقے کے لوگوں کا اندازِ بیان ہے۔

غرض فانیؔ کا انکسار تو اس زمانے کے آداب کے مطابق تھا مگر در اصل انہیں اپنے مرتبے کا بڑا پاس تھا۔ گوالیار میں ایک اردو کے اتالیق کی مہاراجہ کو ضرورت تھی۔ فانیؔ کا نام تجویز ہوا۔ فانیؔ صرف اس لئے وہاں نہ گئے کہ اردو کے اتالیق کی یافت انگریزی کے اتالیق کے برابر نہ تھی۔ پیہم ناکامیوں اور نامرادیوں نے انہیں قنوطی بنا دیا تھا۔ وہ کہتے تھے کہ قضا و قدر نے طے کر لیا ہے کہ ان کا کوئی کام نہ بنے۔ جنوری ۱۹۴۱ء میں نگار کا ایک شمارہ اردو کے ہم عصر غزل گو شعراء کے تذکرے کے لئے مخصوص کیا گیا تھا۔ اس میں شعراء نے اپنے حالات خود لکھے تھے اور اپنے کلام کا خود انتخاب کیا تھا۔ فانیؔ نے مختصر حالات لکھے۔ اس میں اپنی خاندانی نجابت اور امارت کا تذکرہ ضرور کیا تھا۔ مگر اپنے متعلق یہ جملے لکھے تھے۔

’’میں ۱۳؍ ستمبر ۱۸۷۹ء کو دنیا میں لایا گیا۔ اب تک کہ ۱۹۴۰ء ہے زندہ سمجھا جاتا ہوں۔ مختصراً ننک خاندان بھی ہوں اور بار زمین بھی۔ میری ہستی کسی اور کے لئے تو کیا مفید ہوتی خود میرے لئے بھی نہیں۔’‘

اس خودداری، رکھ رکھاؤ اور بے نیازی کے باوجود فانیؔ کا برسوں معظم جاہ کی شب کی صحبتوں میں جانا اور گویا ان کی دربارداری کرنا بڑا عجیب معلوم ہوتا ہے۔ صدق جائسی نے بڑے مبالغے کے ساتھ ’’دربار دُربار‘‘ میں اس دربار کی جھلکیاں دکھائی ہیں۔ فانیؔ کو معظم جاہ نے بلایا تھا۔ کچھ عرصے تک فانیؔ نے ان کے کلام کی اصلاح بھی کی۔ حیدرآباد کے ماحول میں یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ فانیؔ وہاں پہنچ گئے اور چوں کہ معظم جاہ ان کا بڑا خیال کرتے تھے اور ان کے یہاں جنت نگاہ اور فردوس گوش کے ساتھ کام و دہن کے لئے بھی لذتیں تھیں۔ اس لئے وہ جاتے رہے مگر فانیؔ کو اس سے کوئی فائدہ نہ ہوا۔ اس لئے کہ وہ اہلِ دول سے کوئی فائدہ اٹھا ہی نہیں سکتے تھے۔ الٹے ان کی صحت برباد ہوئی۔

ابرار حسین فاروقی نے جو اس زمانے میں حیدرآباد میں تھے، مجھ سے بیان کیا کہ فانیؔ نے ایک دفعہ ملاقات میں شکایت کی کہ پرنس کی موٹر روز شام کو لینے آ جاتی ہے۔ ناک میں دم ہے۔ ابرار صاحب نے جو خاصے کھرے آدمی ہیں جواب میں کہا کہ ’’میرے یہاں کیوں نہیں آتی، تمہارے یہاں کیوں آتی ہے۔ ظاہر ہے کہ تم یہ پسند کرتے ہو۔ پھر شکایت کیسی۔‘‘ فانیؔ نے اس کے جواب میں صرف اتنا کہا کہ ’’تم ٹھیک کہتے ہو۔‘‘

فانیؔ کی غلطی یہ تھی کہ وہ حیدرآباد میں اس حلقے میں رہے جو غیر ملکی کہلاتا تھا۔ پھر انہوں نے حیدرآباد کے دوسرے امراء کو کشن پرشاد کی طرح سمجھا جو واقعی اہل فن کی قدر کرتے تھے اور اپنی ذات اور اپنے چھوٹے سے حلقے میں مگن رہے۔ بہر حال یہ ایک المیہ ہے کہ حیدرآباد نے کتنے ہی نااہلوں کو آسمان پر بٹھا دیا، فانیؔ جیسے شاعر کی کما حقہ قدر نہ کرسکا اور ان کے آخری کئی سال سخت پریشانی میں گزرے۔

فانیؔ کی زندگی رنگینیوں سے یکسر خالی نہ تھی۔ لکھنؤ میں غمِ روزگار کے ساتھ غمِ عشق کا جوشؔ، وحید احمد اور حکیم مختار احمد سب نے ذکر کیا ہے۔ ماہر القادری نے بھی لکھا ہے کہ فانیؔ نے انہیں اپنے جوانی کے کچھ دلچسپ قصے سنائے تھے۔ مغنی تبسم نے لکھنؤ میں تقن جان اور اٹاوے میں نور جہاں سے تعلق کا ذکر کیا ہے۔ میکش نے اس شعر کی تلمیحات واضح کی ہیں۔

گرچہ تھی صبحِ آگرہ بے نور

اوج پر تھا مگر ستارہ شام

ستارہ سے میکش کے یہاں کئی بار ملاقات ہوئی تھی۔ وہ اس کے یہاں جانا چاہتے تھے مگر نہ جاسکے۔ نور جہاں سے ان کا رابطہ یقیناً گہرا تھا جس کی یادگار یہ غزل ہے۔

کیوں جفا کیش کبھی تو بھی جفا کوش نہ تھا

وہ بھی دن تھے کہ خود اپنا بھی تجھے ہوش نہ تھا

بھول جانے کے سوا اب تجھے کچھ یاد نہیں

کل کی ہے بات کہ تو وعدہ فراموش نہ تھا

نگہِ شوق نہ تھی کیفِ اثر سے محروم

میری قسمت میں غمِ بادۂ سر جوش نہ تھا

ظلمت شام میں تھا نورِ سحر کا عالم

آسماں صبح کے ماتم میں سیہ پوش نہ تھا

تجھ میں اور تیرے تصور میں جدائی تھی محال

درمیاں کوئی حجابِ غم آغوش نہ تھا

یادِ ایام کہ فانیؔ کے سوا تیرا ذکر

فتنۂ ہر لب و آوارۂ ہر گوش نہ تھا

مسعود حسین خاں نے مغنی تبسم کی فانیؔ پر کتاب ’’فانی بدایونی۔ حیات، شخصیت اور کارنامے’‘ کے پیش لفظ میں کہا ہے، ’’فانیؔ کا پیغام رُوحِ عصر کے منافی تھا۔ آہنگ فانی، آہنگ عصر سے بالکل مختلف تھا۔ بیسویں صدی کا نصف اول ہمارے قومی زندگی کا ایک مثبت دور تھا۔ یہ ہماری قومی تحریکِ آزادی کا دور تھا۔ دار و رسن کا دور تھا۔ مزدور و کوہکن کا دور تھا۔ بھگتی کا نہیں کرم کا یُگ تھا جس میں للکار تھی، پیکار تھی، جھنکار تھی، اپنی خودی کی پہچان کا غلغلہ تھا۔ یزداں بکمند آور کی ہمتِ مردانہ تھی۔ ایک ایسی سیاسی، معاشرتی اور تہذیبی رستاخیز کے زمانے میں فانیؔ کی یہ آواز تنہا آواز ہے۔

اک معماّ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا

زندگی کاہے کو ہے خواب ہے دیوانے کا۔‘‘

مسعود حسین خاں کے نزدیک، ’’فانیؔ کے نقاد کو انفرادیت کے اس طلسم کو کھولنا ہے جو اقبالؔ اور جوش کے علی الرغم اپنے لئے نغمۂ مرگ ویاس منتخب کرتی ہے جو منکرِ زمانہ ہے اور جو عمرانی تنقید کی گرفت میں کسی طرح نہیں آتی۔‘‘ آگے چل کر انہوں نے کہا ہے کہ فانیؔ غزل کے شاعر ہیں اور غزل رقص و موسیقی کی طرح عمرانیاتی تنقید سے زیرو زبر نہیں کی جاسکتی۔ فانیؔ کا تمام تر اچھا کلام خود ان کی ذات کا اظہار ہے۔ فانیؔ کی آگہی اور غفلت دونوں کا مرکز خود ان کی ذاتِ گرامی تھی۔ یہ ویسی ہی ادھوری حقیقت ہے جیسی جوش کے انہیں بیوۂ عالم اور سوز خواں کا لقب دینے میں ہے یا انہیں مرگھٹ کا شاعر کہنے میں ہے۔ بیسویں صدی کے نصف اول میں صرف دارو رسن، پیکار اور جھنکار ہی نہیں ہے، گو اس کی اہمیت مسلم ہے۔ اس میں ثاقب اور لکھنؤ کے دوسرے شعراء کی وہ شاعری بھی ہے جسے نگار میں گورستانی شاعری کہا گیا تھا۔ فانیؔ کی آواز تنہا آواز نہ تھی۔ اس زمانہ میں جوشؔ نے بھی کہا تھا۔

تبسم اِک بڑی دولت ہے میں بھی اس کا قائل ہوں

مگر یہ آنسوؤں کا ایک شیریں نام ہے ساقی

در اصل فانیؔ کے متعلق یہ عام رائے باقیات کے مطالعے سے قائم کی گئی ہے اور عرفانیات کے نئے کلام اور وجدانیات کو مناسب اہمیت نہ دینے کی وجہ سے مان لی گئی ہے اور اس کے مان لینے میں اس بات کو بھی دخل ہے کہ پیامی شاعری کے غلغلے اور رجائیت کے بلند آہنگ عقیدے نے ہمارے ذہنوں کو اس طرح متاثر کیا ہے کہ مقبول نظریات سے ہٹ کر کوئی کھرا اور سچا شاعر اپنا راستہ بنائے تو اس کی معنویت آسانی سے قبول نہیں کی جاتی۔ پھر اس میں ایک ذہنی فرار بھی ہے۔ حقائق سے آنکھیں چار کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے۔ ’’چاہیے’‘ پراصرار عام ہے ’’ہے’‘ پر پوری توجہ کون کرتا ہے۔ صرف مسرت کے ترانے گانا یا صرف غم کا راگ الاپنا، یک طرفہ ہو سکتا ہے مگر اس کے درجے کو گھٹانا یا بڑھانا قرینِ انصاف نہیں ہے۔ اس نالہ و نغمہ کی تاثیر، کیفیت، گہرائی اور گیرائی کو دیکھنا چاہیے۔

فانیؔ بھی اپنے دور کے حالات و واقعات سے متاثر تھے۔ سماج کی بعض پستیاں انہیں بھی نظر آتی تھیں۔ ان حالات و کیفیات کا اظہار کہیں انہوں نے براہِ راست کیا ہے، کہیں غزل کے رمز و ایما میں۔ براہِ راست اظہار کی کچھ مثالیں دیکھیے۔ اقبالؔ کا راگ نالۂ یتیم سے شروع ہوتا ہے۔ فانیؔ کاعورت کی مظلومیت سے۔

یہ گھر نہیں جیل ہے خطا کاروں کا

اسلام کے بے گنہ گرفتاروں کا

ہے سب سے بڑا گناہ عورت ہونا

ہے یہ قدرت کے گنہگاروں کا

پاکیزہ ہوا کی تازگی سے محروم

دیواروں میں بند، زندگی سے محروم

ہے قابلِ رحم عورتوں کی حالت

زندہ ہیں مگر زندہ دلی سے محروم

آخر عمر میں فانیؔ کشمیر آئے۔ جب کوئی سیاح کشمیر آتا ہے تو زیادہ تر وہاں کے قدرتی مناظر کے گیت گاتا ہے۔ فانیؔ کے تاثرات دیکھیے،

کشمیر میں حالِ اہلِ کشمیر تو دیکھ

ہر پاؤں میں افلاس کی زنجیر تو دیکھ

سمجھے ہم کیا تھے، دیکھتے ہم کیا ہیں

کشمیر کے خواب اپنی تعبیر تو دیکھ

پھولوں کی نظر نواز رنگت دیکھی

مخلوق کی دلگداز حالت دیکھی

قدرت کا کرشمہ نظر آیا کشمیر

دوزخ میں سموئی ہوئی جنت دیکھی

اس باغ میں جو کلی نظر آتی ہے

تصویر فسردگی نظر آتی ہے

کشمیر میں ہر حسین صورت فانیؔ

مٹی میں ملی ہوئی نظر آتی ہے

فانیؔ کے مزاج اور ان کی شاعری کے مزاج کو سمجھنے کے لئے ان کی چند رباعیاں کلیدی اہمیت رکھتی ہیں۔ یہاں صرف دو کی طرف توجہ دلانا کافی ہوگا۔

عالم بدلا فضائے عالم بدلی

ہر شے بے اختیار و پیہم بدلی

ہاں اِک مری تقدیر کہ بدلی ہی نہیں

اِک میری طبیعت کہ بہت کم بدلی

مجھے یہاں یہ کہنا ہے کہ چونکہ فانیؔ کی طبیعت بہت کم بدلی۔ اس لئے ان کی تقدیر بدلی ہی نہیں۔ اگرچہ خود فانیؔ کو اس بات کا احساس نہ ہوسکا۔ ان کی طبیعت کے بہت کم بدلنے میں ان کی طاقت اور کمزوری دونوں کا راز پوشیدہ ہے۔ دوسری رباعی یہ ہے۔

بجھتی ہی نہیں شمع جلے جاتی ہے

کٹتی ہی نہیں رات، ڈھلے جاتی ہے

جاری ہے نفس کی آمد و شد فانیؔ

سینے میں چھری ہے کہ چلے جاتی ہے

اس میں فانیؔ کے اسلوب کی نشتریت، اس کی روانی، اس کی تاثیر اور اس کے ساتھ لفظوں میں ایک جہانِ معنی آباد کرنے کی صلاحیت، بھرپور انداز سے جلوہ گر ہے۔ ہم اسے فانیؔ کے رنگ کی نمائندہ کہہ سکتے ہیں۔

فانیؔ کی بعض رباعیاں یقیناً قابلِ قدر ہیں اور رباعی کے کسی انتخاب میں ان کی چند رباعیاں ضرور شامل کی جا سکتی ہیں، مگر فانیؔ کے فن کی بلندی، اس کی چستی، اس کی کیفیت اور تاثر ان کی غزلوں میں ہی ظاہر ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ ان کا سارا کلام یکساں اہمیت کا حامل نہیں ہے۔ دیوانِ فانیؔ میں کم ہی ایسے اشعار ہیں جن پر نظر ٹھہرے یا جو دل پر گہرا اثر چھوڑیں۔ ان میں امیرؔ و داغ یا ناسخ یا کچھ غالب اور کچھ حسرت کے رنگ کی جھلک ملتی ہے لیکن باقیات میں آکر فانیؔ کے یہاں میرؔ، غالبؔ اور حسرتؔ کے رنگ کے ساتھ ان کی اپنی انفرادیت بھی جھلکنے لگتی ہے، جو عرفانیات کے نئے کلام میں پختگی کی ایک اور منزل طے کرتی ہے اور وجدانیات کے سہلِ ممتنع میں، پختگی کے ساتھ شیرینی اور لطافت کے ساتھ گداز کا خزانہ بن جاتی ہے۔

جدید تنقید اب فلسفے، سیاست، مذہب، اخلاق، پیام، خاص نظریوں اور چیدہ موضوعات یا زبان کی سادگی، خیال میں اصلیت اور جوش کے برملا اظہار، کسی فیشن یا فارمولے، روایت کی پرستش یا تجربے سے تجربے کی خاطر محبت کی بناء پر شاعر کی اہمیت کے متعلق حکم نہیں لگاتی۔ وہ اب اس نکتے سے واقف ہوگئی ہے کہ ادب نہ محض سماجی دستاویز ہے، نہ ایک نظریاتی تجزیہ، نہ مجرد فکر کا سرچشمہ ہے، نہ علم کا بدل۔ یہ ایک مخصوص بصیرت رکھتا ہے جو علم کی روشنی سے نہ بہتر ہے نہ کمتر۔ ہاں اس سے مختلف ضرور ہے۔ شاعری محسوس خیال کا دوسرا نام ہے اور اس محسوس خیال کا ایسے نادر الفاظ میں ڈھل جانا ضروری ہے جو غالب کے الفاظ میں گنجینۂ معنی ہوں۔

شاعری میں واقعہ جب تک تجربہ نہ بنے، اس کی اہمیت نہیں ہے۔ خیال جب تک تخیل کے سہارے رنگارنگ اور پہلودار نہ ہو، بیکار ہے اور احساس جب تک عام اور سطحی احساس سے بلند ہوکر دل کی دھڑکن، لہو کی ترنگ، روح کی پکار نہ بن جائے اس وقت تک اس میں وہ تھرتھراہٹ، گونج، لپک، کیفیت، تاثیر و دل گدازی اور دلنوازی نہیں آتی جو فن کی پہچان ہے۔ شاعری میں صرف مواد کی اہمیت نہیں ہے۔ مواد کے فارم میں حل ہوجانے اور خیال کے جذبہ بن جانے، بیان کے حسن بیاں ہوجانے، لفظ کے دنیا میں تبدیل ہو جانے اور ذات کے کائنات بن جانے کی ہے۔

شاعری محض لفظوں کا کھیل یا زبان پر قدرت کی نمایش بھی نہیں ہے۔ ہاں شاعری بہترین الفاظ کی بہترین ترتیب کا نام ہے۔ یہاں بہترین کی جگہ آپ موزوں ترین یا مناسب ترین بھی کہہ سکتے ہیں۔ شاعری کے لئے خلوص ضروری ہے مگر یہ کافی نہیں۔ شخصیت کا استناد یا کھراپن بھی ضروری ہے۔ شخصیت کے اس کھرے پن کی وجہ سے ہی، شاعر کے لہجے میں انفرادیت، طبیعت میں استقامت، مزاج میں لطافت کے ساتھ صلاحیت اور آواز میں وہ مخصوص آہنگ پیدا ہوتا ہے جو ذہن کو روشنی اور گرمی اور طبیعت کو وجد و کیف عطا کرتا ہے اور جو سچے اور کھرے فن کی پہچان ہے۔

کہنا یہ ہے کہ بڑائی صرف نظم یا صرف غزل میں نہیں ہے۔ صرف موضوع میں بڑائی نہیں ہے۔ صرف کسی نظریے کی پاسداری میں بڑائی نہیں ہے۔ صرف نئے پن یا پرانے پن میں بڑائی نہیں ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ فن کی حیثیت سے نہ غزل کو نظم پر فوقیت ہے نہ نظم کو غزل پر۔ موضوع یا نظریے یا نئے پن کے سہارے بھی بڑی شاعری ہو سکتی ہے۔ بنیادی معاملہ صرف شعریت کا ہے اور جس طرح حسن ہزار شیوہ ہے، اسی طرح فن بھی ہزار داستاں ہے اور جس طرح حسن کی ان گنت ادائیں ہیں اسی طرح فن کے بھی ان گنت سانچے، اسلوب اور روپ ہیں۔ سخن فہم کا کام ہر سخن کے آداب کو سمجھنا، ہر جلوے کی تابانی کو پہچاننا، ہر رنگ کا ادا شناس ہونا ہے۔

نو آبادیاتی دور میں مغرب کی ہر شے آنکھ کا سرمہ تھی اور اپنی ہر شے آنکھ کا غبار۔ یہ نقطہ نظر آزادی کے بعد بدلا ہے اور اسے بدلنا چاہیے۔ مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ ہم مغربی یا عالمی معیاروں کو یکسر نظر انداز کردیں اور ایک محدود مشرقی روایت یا مزاج پر ہی اکتفا کریں، اول تو مشرق اور مغرب کی اصطلاحیں بھی سہولت کے لئے ہیں، دوسرے مغرب میں ادب کے جو نمونے سامنے آئے ہیں اور جو معیار متعین کئے گئے ہیں، ان سے ہمیں مدد ضرور مل سکتی ہے بشرطیکہ ہم ان کے بجنسہ اطلاق پر اصرار نہ کریں بلکہ ان کی روح کو دیکھیں اور ان کے آفاقی اور عالمی پہلوؤں کو اپنے مزاج اور روایت کے مطابق ڈھالیں مثلاً مغرب میں حقیقت نگاری کے دبستان نے بڑی ترقی کی ہے اور یہ مغرب کی انسانیت کو دین ہے مگر حقیقت نگاری بھی ادب میں سب کچھ نہیں ہے، اسطور سازی اور علامت نگاری کی بھی اس میں اہمیت ہے۔

مغرب میں نظم کو بڑی ترقی ہوئی ہے اور مسلسل اور مربوط اظہار اور ابتداء، وسط اور خاتمے کے لحاظ سے نک سک سے درست، ادب کے بڑے بلند پایہ کارنامے وجود میں آئے ہیں، مگر مغرب چینی، جاپانی اور فارسی ادب سے بھی متاثر ہوا ہے اور اشارے، کناے، رمز و ایما اور علایم کی ہمارے یہاں بھی خاصی پرانی تاریخ ہے۔ اس لئے ہمیں تاریخیت یا مطلقیت کے بجائے تناظریت کو اپنانا چاہیے اور حسن کی ہر ادا اور فن کے ہر اعجاز کے ساتھ انصاف کرنا چاہیے۔

اس نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو فانیؔ کا اپنے دور کے رجز کا ساتھ دینا (جبکہ وہ پورے دور کا رجز تھا بھی نہیں) بلکہ اپنا ہی ایک راگ الاپنا، ادب کی شریعت میں نہ صرف جائز بلکہ مستحسن قرار دیا جائےگا۔ ان کے یہاں حزنیہ رنگ یا ان کے یہاں موت سے رازو نیاز یا قضا کو دلہن سمجھنا یا زندگی کی مجبوریوں اور نامرادیوں کی طرف بار بار اشارہ کرنا ان کی کمزوری نہیں ان کی طاقت ہے۔ انہوں نے وہی کہا ہے جو محسوس کیا ہے اور ہم زیادہ سے زیادہ یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ یہی ساری زندگی نہیں ہے مگر یہ اعتراف ہمیں کرنا ہی پڑےگا کہ یہ بھی زندگی ہے۔ مجنوں گورکھپوری کا یہ کہنا کہ فانیؔ کا کلام زندگی سے اس کا ولولہ چھین لیتا ہے اور اس لئے صحت مندنہیں ہے، ایک ایسے ذہن کا غماز ہے جو زندگی کی تمام حقیقتوں سے آنکھیں چار نہیں کر سکتا۔ موت بھی زندگی کی ایک حقیقت ہے۔ یہ ضرور ہے کہ جس طرح اقبالؔ کے یہاں خودی کے لفظ کی تکرار، باوجود ایک شاندار اور جاندار اسلوب کے، کبھی کبھار بور کردیتی ہے، اسی طرح فانیؔ کے یہاں موت اور جبر حیات اور نامرادی کی داستان کی تکرار بھی کھل جاتی ہے۔

یہاں بات تنوع کی کمی کی ہے، موضوع کی کمتری یا برتری کی نہیں، مگر جہاں تک حزنیہ لے کا سوال ہے تو کیا کیا جائے، اردو شاعری کی تاریخ میں میرؔ کے یہاں بھی یہ حزنیہ لے ہے اور ایک الم پسندی یا یاس پسندی بھی۔ غالبؔ کے لہجے میں اداسی کی کیفیت پر تو فیض نے بھی ایک مضمون میں زور دیا ہے اور سر عبدالقادر نے جو اقبالؔ کے گہرے دوست تھے، اقبالؔ کے کلام میں بھی کیفِ غم، کی طرف اشارہ کیا ہے۔ حالیؔ کی مسدس کا لہجہ کچھ ایسا ماتمی تھا کہ سرسید کے اصرار پر انہوں نے اس کا ایک ضمیمہ لکھا۔ مسدس آمد ہے مگر ضمیمہ آورد۔ عزیز اور ثاقب کی شاعری کو تو گورستانی کہا ہی گیا ہے مگر آزادی کے بعد جدید غزل میں ناصر کاظمی، خلیل الرحمٰن اعظمی، ابنِ انشا کے یہاں لے کتنی تیز ہے۔ در اصل اس کے پیچھے کچھ تاریخی، سماجی اور نفسیاتی حقایق ہیں۔

ہمیں تو صرف یہ دیکھنا چاہیے کہ شاعر ہمیں جو تصویر دکھاتا ہے وہ کتنی جاندار ہے، اس کے خیال میں کیا صداقت ہے، وہ ہمارے ذہن میں ایک نگارخانہ بسا سکتا ہے یا نہیں، وہ لفظوں کے ذریعہ سے ایک کائنات خلق کرسکتا ہے یا نہیں اور اس کی خصوصیت میں کیا عمومیت اور اس کی انفرادیت میں کتنی آفاقیت ہے۔ اس کی داستان ہماری داستان معلوم ہوتی ہے یا نہیں اور اگر ہماری نہیں تو دنیا کی داستان یا قابلِ قبول داستان معلوم ہوتی ہے یا نہیں۔

پھر یہ بھی صحیح نہیں کہ فانیؔ کے یہاں صرف جبر حیات یا لاش و کفن یا نزع و مرگ کے مضامین ہیں۔ فانیؔ نے کئی چراغوں سے اپنا چراغ جلایا ہے مگر میرے نزدیک ان کی شاعری میں اہم اثرات میرؔ، غالبؔ اور حسرت کے ہیں۔ در اصل میرؔ کے بعد ان کے سچے جانشین فانیؔ ہیں جس طرح غالبؔ کے سچے جانشین اقبالؔ ہیں۔ میرؔ صرف حزن و یاس کے شاعر نہیں ہیں، وہ حسن کے ادا شناس اور عشق کی واردات کے ترجمان بھی ہیں۔ فانیؔ کے یہاں توجہ اگرچہ عشق کی واردات پر زیادہ ہے، مگر حسن کے ادا شناس فانیؔ بھی ہیں۔ یہ اشعار توجہ چاہتے ہیں۔

ذکر جب چھڑ گیا قیامت کا

بات پہنچی تری جوانی تک

عجب عالم ہے موج برق کے پہلو میں بادل کا

تری الٹی ہوئی سی آستیں معلوم ہوتی ہے

اک برق سر طور ہے لہرائی ہوئی سی

دیکھوں تیرے ہونٹوں پہ ہنسی آئی ہوئی سی

لو تبسم بھی شریکِ نگہ ناز ہوا

آج کچھ اور بڑھائی گئی قیمت میری

پھر دل سے فانیؔ سارے کے سارے نقش جفا مٹ جاتے ہیں

جس وقت وہ ظالم سامنے آکر جانِ حیا ہو جاتا ہے

تم جوانی کی کشاکش میں کہاں بھول اٹھے

وہ جو معصوم شرارت تھی حیا سے پہلے

میں نے فانیؔ ڈوبتے دیکھی ہے نبضِ کائنات

جب مزاج دوست کچھ برہم نظر آیا مجھے

کافر صورت دیکھ کے منہ سے آہ نکل ہی جاتی ہے

کہتے کیا ہو اب کوئی اللہ کا یوں بھی نام نہ لے

میرؔ کا ایک مشہور شعر ہے۔

ہم طورِ عشق سے تو واقف نہیں ہیں لیکن

سینے میں کوئی جیسے دل کو ملا کرے ہے

اور شیفتہ کہتے ہیں،

شاید اسی کا نام محبت ہے شیفتہ

اک آگ سی ہے سینے کے اندر لگی ہوئی

فانیؔ کا یہ شعر بھی اسی قبیلے کا ہے۔ اس میں واردات، ایک سبھاو، ایک چلن، ایک عبارت بن گئی ہے،

معلوم نہیں کیا ہے محبت لیکن

کانٹا دل میں کھٹک رہا ہے کوئی

پھر یہ شعر۔

کوئی چٹکی سی کلیجے میں لئے جاتا ہے

ہم تری یاد سے غافل نہیں ہونے پاتے

اور اس سے ملتا جلتا یہ شعر بھی بلا کی کیفیت رکھتا ہے۔

کیا عمر میں اِک آہ بھی بخشی نہیں جاتی

اک سانس بھی کیا آپ کے نا کام نہ لیتے

فانیؔ کے یہاں واردات محبت کی ایسی منہ بولتی تصویریں ملتی ہیں کہ از دل خیز دو بر دل ریز دوالی صداقت آشکار ہو جاتی ہے۔ غزل کی روح ان اشعار میں کھنچ آئی ہے کیوں کہ غزل در اصل زخمی روح کی پکار ہی ہے۔

جن میں تمہارا نور رہا تھا ان میں اندھیرا رہتا ہے

جب سے گئے ہو آنکھوں میں آنسو تو بہت ہیں نور نہیں

نگاہِ شوق کے دم تک تھیں آنکھیں

اب آنکھیں یاد گاریں ہیں نظر کی

یاد ہے وہ نو میدی میں ہلکی سی جھلک امیدوں کی

ہائے وہ دل کی بربادی پر دھوکا سا آبادی کا

یاس و امید سے کام نہ نکلا دل کی تمنا دل میں رہی

ترکِ تمنا کر نہ سکے اظہارِ تمنا ہو نہ ہوسکا

جس سے دل میں زخم پڑے تھے پھر وہ نظر مرہم نہ ہوئی

تم نے جسے اچھا نہ کیا پھر تم سے بھی اچھا ہو نہ سکا

دیکھ دل کی زمیں لرزتی ہے

یاد جاناں قدم سنبھال اپنا

اس کو بھولے تو ہوئے ہو فانیؔ

کیا کروگے وہ اگر یاد آیا

یا کہتے تھے کچھ کہتے جب اس نے کہا کہیے

تو چپ ہیں کیا کہیے کہ، کھلتی ہے زباں کوئی

ا س شعر میں بھی میرؔ کے مشہور شعر کا فیضان ضرور ہے مگر فانیؔ نے صرف مکھی پر مکھی نہیں ماری ہے۔

جب پرسش حال وہ فرماتے ہیں جانیے کیا ہوجاتا ہے

کچھ یوں بھی زباں نہیں کھلتی کچھ درد سوا ہوجاتا ہے

سن کے تیرا نام آنکھیں کھول دیتا تھا کوئی

آج تیرا نام لے کر کوئی غافل ہوگیا

روز ہے دل میں محبت کا نرالا اندار

روز دل میں تری تصویر بدل جاتی ہے

جگ سونا ہے تیرے بغیر آنکھوں کا کیا حال ہوا

جب بھی دنیا بستی تھی اب بھی دنیا بستی ہے

آنکھیں تھیں سو خشک ہوئیں جی ہے کہ امڈا آتا ہے

دل پہ گھٹا سی چھائی ہے کھلتی ہے نہ برستی ہے

اس کیفیت کو الفاظ میں مقید کردینا، فانیؔ کا بہت بڑا کارنامہ ہے، جگر نے بھی ایک کامیاب کوشش کی ہے مگر مولوی مدن والی بات پیدا نہیں ہوسکی۔

محبت میں ایک ایسا وقت بھی دل پر گزرتا ہے

کہ آنسو خشک ہوجاتے ہیں طغیانی نہیں جاتی

فانیؔ کے یہاں صرف دردِ محبت کی ترجمانی نہیں ہے گویا ترجمانی بھی انہیں میرؔ کی برادری میں ایک ممتاز مقام دینے کے لئے کافی ہے۔ انہوں نے درد محبت کو ایک داستان اور اس داستان کو ایک زاویۂ زندگی بنا دیا ہے۔ اس زاویۂ زندگی کو کچھ سطح میں اور حقایق سے گریز کرنے والے حضرات نے مریضانہ بھی کہہ دیا ہے، کیوں کہ اس کے مقابلے میں زندگی کا ایک روشن یار جائی تصور زیادہ بھلا لگتا ہے، مگر زندگی اتنی پیچیدہ، اتنی متضاد، اتنی گمبھیر شے ہے کہ کوئی نظریہ اس کی مکمل ترجمانی نہیں کرسکتا۔ ہر نظریہ حقیقت کی صرف ایک تاویل ہے اور زندگی رنج و راحت، خوشی اور غم، نور و ظلمت، جبر و اختیار، مقصدیت اور لا مقصدیت، معنویت اور لا معنویت کا ایک طلسم ہوش ربا ہے جس کے لئے ہر صاحبِ نظر اور صاحبِ دل ایک لوح لیے پھرتا ہے اور اس لوح سے طلسم کا ایک گوشہ ہی فتح ہوپاتا ہے اور اس کے کتنے ہی حجرہ ہائے بلا پھر بھی مقفل رہتے ہیں۔

اس لئے فانیؔ کا زاویہ زندگی بھی اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے۔ اس سے اتفاق ضروری نہیں مگر اس کا اعتراف ضروری ہے۔

انسان ایک مجموعہ اضداد ہے۔ وہ یقین اور بے یقینی، اقرار اور انکار، کامرانی اور ناکامی، وحدت کی کوشش اور ہر وحدت کو کثرت میں تبدیل کرنے کے عمل، عقیدے اور تشکیک، فتح و شکست، آسودگی اور بے اطمینانی سبھی مرحلوں سے گزرتا ہے۔ اس صورت میں زندگی کی ہر تفسیر اور تعبیر اپنی جگہ اہمیت رکھتی ہے بشرطیکہ وہ نہاں خانۂ دل کو چھوتی ہو اور اس سے ایک بصیرت ملتی ہو جو انسانیت اور اس کی روداد کا کچھ اور عرفان عطا کر سکے۔

فانیؔ جو بہت سے لوگوں کو خاصے پرانے معلوم ہوتے ہیں، ایک اعتبار سے خاصے نئے ہیں بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایک معنی میں اقبالؔ سے زیادہ نئے۔ کیوں کہ اقبالؔ زیادہ تر انیسویں صدی کے ان نظریوں سے متاثر ہیں جو انسان کو کائنات میں مرکزیت دیتے ہیں اور جن کے مطابق انسان کائنات کا حاکم اور اپنی تصویر کا مالک ہے۔ بیسویں صدی میں وجودیت اور زندگی کی لامعنویت کے نظریے، وہ کہانی سناتے ہیں جو فانیؔ کی داستانِ درد سے ملتی جلتی معلوم ہوتی ہے۔ اس لئے میرے نزدیک فانیؔ کا یہ کہنا کہ شاعر زمانہ ٔ مستقبل کا انسان ہوتا ہے، ایک نئی معنویت کا حامل ہے۔ خواہش مرگ، تخریب، جارحیت بھی اسی عجیب و غریب انسان کی بو قلموں فطرت کے پہلو ہیں اور ان کی روشنی میں فانیؔ کے یہ اشعار ایک نیا وزن و وقارحاصل کرلیتے ہیں۔

زندگی جبر ہے اور جبر کے آثار نہیں

ہائے اس قید کو زنجیر بھی درکار نہیں

اک معما ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا

زندگی کا ہے کوہے خواب ہے دیوانے کا

یہ کوچۂ قاتل ہے آباد ہی رہتا ہے

اک خاکِ نشیں اٹھا اک خاک نشیں آیا

تعمیر آشیاں کی ہوس کا ہے نام برق

جب ہم نے کوئی شاخ چُنی، شاخ جل گئی

اس کشمکش ہستی میں کوئی راحت نہ ملی جو غم نہ ہوئی

تدبیر کا حاصل کیا کہیے، تقدیر کی گردش کم نہ ہوئی

کچھ ادائیں ہیں جنہیں قتل عبث ہے منظور

کچھ سزائیں ہیں جو ملتی ہیں خطا سے پہلے

گل خزاں کے راز کا محرم نظر آیا مجھے

ہر تبسم پردہ دارِ غم نظر آیا مجھے

موج نے ڈوبنے والوں کو بہت کچھ پلٹا

رخ مگر جانبِ ساحل نہیں ہونے پائے

مر کے ٹوٹا ہے کہیں سلسلۂ قیدِ حیات

مگر اتنا ہے کہ زنجیر بدل جاتی ہے

اگلے برس کے پھولوں کا کیا حال انہیں معلوم نہیں

کلیوں کا یہ طرزِ تبسم، یہ شادابی کیا کہیے

یہ زندگی کی ہے رودادِ مختصر فانیؔ

وجود درد مسلم علاج نا معلوم

نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم

رہا یہ وہم کہ ہم ہیں سو وہ بھی کیا معلوم

شاد عظیم آبادی کے اس شعر سے موازنہ دلچسپ ہے اور شاید فانیؔ کے حق میں ہو۔

سنی حکایتِ ہستی تو درمیاں سے سنی

نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم

فانیؔ کے اس زاویہ نگاہ کی بہر حال اہمیت ہے مگر اس سے زیادہ اہمیت فانیؔ کے فن کی ہے جس کا پورا اعتراف ابھی تک نہیں ہوا ہے۔ فانیؔ نے میرؔ سے اظہار کا سلیقہ سیکھا اور غالبؔ سے اس میں عبارت، اشارت اور ادا کے رموز حاصل کیے۔ میرؔ کی زبان کا ڈھانچہ اردو پن کا سب سے اچھا ڈھانچہ ہے۔ یہ میرؔ سوز کی طرح فارسی اضافتوں سے اپنا دامن نہیں بچاتا۔ ان سے خیال کے ارتکاز اور اظہار کی بلاغت بہر حال لیتا ہے، مگر اسلوب کی سادگی اور اس میں ابلاغ کی بھرپور صلاحیت اور اس کے ساتھ خیال کی تہوں تک رسائی کے لئے ہندوستانی ڈھانچے سے کام لیتا ہے۔ فانیؔ نے میرؔ سے صرف زبان نہیں سیکھی۔ انہوں نے لہجہ بھی سیکھا اور میرؔ کی طرح طویل اورمختصر بحروں میں بھی کمالِ فن کا ثبوت دیا۔

غالبؔ کا معاملہ اردو شاعری میں ایک پیغمبر نہیں مجدد کا سا ہے۔ انہیں اپنے دور کی ہموار اور بامحاورہ زبان کو اس لئے بدلنا پڑا کہ اس میں تخیل خلاق نہ رہا تھا۔ ہموار راستوں اور سیدھے سادے انسلاکات کو پیش کرنے پر قادر رہ گیا تھا۔ یہ جیتے جاگتے استعارے کے بجائے سوئے ہوئے استعارے سے کام چلاتا تھا۔ فانیؔ نے غالبؔ سے یہی گر سیکھا۔ فانیؔ کا راستہ میرؔ کا ہے۔ ہاں انہوں نے زادِ راہ غالبؔ سے لیا ہے۔ غالبؔ کی زمینوں میں فانیؔ کی غزلیں ظاہر کرتی ہیں کہ بہر حال غالبؔ کی دنیا میں فانیؔ گئے گزرے نہیں ہیں۔ یہ شعر ملاحظہ کیجئے۔

نکوہش ہے سزا فریادی بیداد دلبر کی

مبادا خندۂ دنداں نما ہو صبح محشر کی

غالبؔ

کیا جانیے کہ حشر ہو کیا صبح حشر کا

بیدار تیرے دیکھنے والے ہوئے تو ہیں

فانیؔ

لو وہ بھی کہتے ہیں کہ یہ بے ننگ و نام ہے

یہ جانتا اگر تو لٹاتا نہ گھر کو میں

غالبؔ

بہلا نہ دل نہ تیرگیِ شامِ غم گئی

یہ جانتا تو آگ لگاتا نہ گھر کو میں

فانیؔ

مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی

ہیولا برقِ خرمن کا ہے خونِ گرم دہقاں کا

غالبؔ

تعمیر آشیاں کی ہوس کا ہے نام برق

جب میں نے کوئی شاخ چنی شاخ جل گئی

فانیؔ

غزل بڑی کافر صنفِ سخن ہے۔ اس میں کامیابی انہیں شعرا کو ہوئی ہے جن کے یہاں دروں بینی ہے۔ جس میں باہر کے پیڑ سے اندر کا پیڑ اگا ہے، جس میں نظر کی کھڑکی کھلی ہونے کے باوجود دل کے آتش خانے کی آنچ تیز ہے، جس میں تجربے نے واردات کو پگھلا کر اور تخیل کی مدد سے اسے رنگ و آہنگ، تہہ داری اور ندرت، تازہ کاری اور لالہ کاری عطا کردی ہے اور اس کی وجہ سے الفاظ میں ایسے تیور آگئے ہیں کہ بات پیمبرانہ معلوم ہوتی ہے۔ فانیؔ کے فن میں قول محال، استعارہ، پیکر تراشی، الفاظ یا فقروں کی تکرار، زبان کی حیرت انگیز روانی (جو بڑے ریاض کا ثمرہ ہے) نمایاں ہیں۔ وہ آوازوں کا استعمال جانتے ہیں۔ طویل مصوتوں کی کثرت، نرم یا گونج پیدا کرنے والی اصوات، آواز میں نرمی کے ساتھ پڑھنے والے کو بہالے جانے کی صلاحیت، روزمرہ کی چاشنی سے واردات کو دلوں کی دھڑکن بنانے کی قدرت، ان کی خصوصیات ہیں۔

فانیؔ کے بہت سے معاصرین کے یہاں بھرتی یا حشو کا احساس ہوتا ہے، مگر فانیؔ کے یہاں کوئی لفظ بھی بیکار نہیں معلوم ہوتا۔ فانیؔ کے بعض اشعار اور بعض مصرعے ایسے بے تکلف اور رواں ہیں کہ ضرب المثل بن جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ان میں ایسا جہان معنی آباد ہے کہ وہ زندگی کے مختلف مرحلوں پر یاد آکر ان مرحلوں کو آسان اور گوارا بنا دیتے ہیں۔ ان کے غم میں ایک ترفع محسوس ہوتا ہے، جو تزکیہ نفس کا کام دیتا ہے۔

غزل کے رمزو ایما میں آج بھی بڑی گنجایش ہے۔ ہر پرانے رمز کو نئی حقیقتوں کی جہت دی جا سکتی ہے۔ صرف فن کار کی نظر روایت کے پورے سرمائے پر ہونی چاہیے اور اس کے تجربے اور نظر میں انفرادیت ہونی چاہیے۔ یعنی یہ محسوس ہوکہ یہ نکتہ اس شاعر پر نازل ہوا ہے۔ قفس، آشیاں، ساقی، مے خانہ، صحرا، دیوانہ، گرداب، ساحل کو فرسودہ سمجھنے والوں کو میرا پرخلوص مشورہ یہ ہے کہ وہ خواجہ منظور حسین کی وہ کتاب پڑھیں جو حال میں تحریکِ حریت و جہاد کے نام سے لاہور سے شائع ہوئی ہے۔ اس سے یہ واضح ہو جائےگا کہ ان علامات میں بھی ہماری کئی صدیوں کی سماجی، تہذیبی، سیاسی اور نفسیاتی تاریخ محفوظ ہو گئی ہے۔ فانیؔ کے اس شعر پر عندلیب شادانی نے شاید حقیقت نگاری کے فریب میں آ کر اعتراض کیا تھا کہ اس سے جو تصویر ذہن میں آتی ہے وہ بڑی کراہیت کی حامل ہے۔

ہڈیاں ہیں کئی لپٹی ہوئی زنجیروں میں

لیے جاتے ہیں جنازہ ترے دیوانے کا

لیکن اگر بھگت سنگھ، اشفاق اللہ اور رام پرشاد بسملؔ اور دوسرے شہیدان آزادی کا تصور کیا جائے تو یہ شعر ان کی قربانی اور اس کی عظمت و معنویت کی تصویر بن جاتا ہے۔

اب یہ اشعار دیکھیے اور ان کی معنویت پر غور کیجئے۔

فصلِ گل آئی یا اجل آئی کیوں در زنداں کھلتا ہے

کیا کوئی وحشی آپہنچایا کوئی قیدی چھوٹ گیا

منزلِ عشق پہ تنہا پہنچے کوئی تمنا ساتھ نہ تھی

تھک تھک کر اس راہ میں آخر اِک اِک ساتھی چھوٹ گیا

نظیر نامے کے ہنس نامے کی ساری روداد فانیؔ نے اس شعر میں بیان کر دی ہے۔

یہ اشعار بھی توجہ طلب ہیں،

یہ کوچۂ قاتل ہے آباد ہی رہتا ہے

اِک خاک نشیں اٹھا، اِک خاک نشیں آیا

تونے دیکھے ہیں اے نسیمِ سحر

کچھ فدائی تھے شمع محفل کے

فانیؔ دوائے دردِ جگر زہر تو نہیں

کیوں ہاتھ کانپتا ہے مرے چارہ ساز کا

شعبدے ایسے آنکھوں کے کتنے ہم نے دیکھے ہیں

آنکھ کھلی تو دنیا تھی، بند ہوئی افسانہ تھا

کیا موجودہ سیاست میں جو ستارے ابھرتے ہیں اور غروب ہو جاتے ہیں، ان پر یہ لطیف اور معنی خیز تبصرہ نہیں ہے۔ غزل میں ہر سخن ماورائے سخن بھی ہوتا ہے۔ اس میں سطور ہی نہیں بین السطور کی بھی اہمیت ہے۔ فانیؔ کے یہاں ہر شے نظر آتی ہے نظر آئی ہوئی سی، اور ہائے وہ دل کی آبادی پر دھوکا سا آبادی کا، اس کی اچھی مثالیں ہیں۔ فانیؔ الفاظ کے بڑے اچھے نباض ہیں اس لئے ان کے یہاں پیوند کاری کا احساس نہیں ہوتا۔ اندرونی قوافی سے انہوں نے بڑا کام لیا ہے اور فضا آفرینی میں بھی انہیں کمال حاصل ہے۔

گم کردہ راہ ہوں قدمِ اولیں کے بعد

پھر راہبر مجھے نہ ملا راہبر کو میں

غم کے ٹہو کے کچھ ہوں بلا سے، آکے جگا تو جاتے ہیں

ہم ہیں مگر وہ نیند کے ماتے جاگتے ہی سوجاتے ہیں

سن کے تیرا نام آنکھیں کھول دیتا تھا کوئی

آج تیرا نام لے کر کوئی غافل ہو گیا

سرور عقل و غم عشق کے دوراہے پر

بڑے بڑوں کے قدم ڈگمگا دیے تونے

غزل متفرق اشعار کا گلدستہ ہوتی ہے جسے ردیف اور قافیے اور کبھی کبھی موڈیا وحدتِ تاثر کے تاروں سے باندھا جاتا ہے۔ یہ بات تمام بڑے غزل گو شعرا کے یہاں ملےگی کہ ان کی پوری غزل مرصع نہیں ہے اس میں کچھ معمولی اشعار بھی ہوتے ہیں۔ شاید اس لئے کہ پھر حیرت ناک جلووں پر نگاہ پڑتی ہے تو جم کر رہ جاتی ہے۔ پھر بھی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ حسبِ ذیل غزلیں جن کے صرف مطلعے یہاں دیے جا رہے ہیں، فانیؔ کی نمایندہ غزلیں ہیں۔

تیرا نگاہِ شوق کوئی رازداں نہ تھا

آنکھوں کو ورنہ جلوہ جاناں کہاں نہ تھا

خود برق ہو اور طور تجلی سے گزر جا

خود شعلہ بن اور وادیٔ سینا سے گزر جا

اِک معما ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا

زندگی کا ہے کو ہے خواب ہے دیوانے کا

شوق سے ناکامی کی بدولت کوچۂ دل ہی چھوٹ گیا

ساری امیدیں خاک ہوئیں دل بیٹھ گیا جی چھوٹ گیا

نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم

رہا یہ وہم کہ ہم ہیں سو وہ بھی کیا معلوم

آ، ورنہ جانتا ہوں فریبِ نظر کو میں

دیکھوں الٹ کے پردۂ داغِ جگر کو میں

لطف و کرم کے پتلے ہو اب مہر و ستم کا نام نہیں

دل پہ خدا کی مار کہ پھر بھی چین نہیں آرام نہیں

دل وقفِ تپش ہے ہائے مگر وجہ تپش دل کوئی نہیں

بسمل ہوں مگر کیوں بسمل ہوں فریاد کہ قاتل کوئی نہیں

دیر میں یا حرم میں گزرے گی

عمر تیرے ہی غم میں گزرے گی

اس کشمکش ہستی میں کوئی راحت نہ ملی جو غم نہ ہوئی

تدبیر کا حاصل کیا کہیے تقدیر کی گردش کم نہ ہوئی

بشر میں عکس موجودات عالم ہم نے دیکھا ہے

وہ دریا ہے یہ قطرہ لیکن اس قطرے میں دریا ہے

دنیا میری بلا جانے مہنگی ہے یا سستی ہے

موت ملے تو مفت نہ لوں ہستی کی کیا ہستی ہے

جب پرسش حال وہ فرماتے ہیں جانیے کیا ہو جاتا ہے

کچھ یوں بھی زباں نہیں کھلتی کچھ درد سوا ہو جاتا ہے

فانیؔ کی ایک غزل کا موازنہ میں یگانہؔ کی ایک غزل سے کرنا چاہتا ہوں۔ اگرچہ فانیؔ کی بحر مختلف ہے، مگر یہ یگانہ کی غزل پر کہی گئی ہے اور دونوں کی انفرادیت، لہجے اور مذاق کو ظاہر کرتی ہے۔ یگانہؔ بھی فانیؔ کی طرح زبان کے بہت اچھے نباض تھے اور بڑے فن کار لیکن صرف اس بناء پر کہ یگانہؔ کا لہجہ زیادہ پرامید ہے اور ان کے تیور زیادہ کڑے، فانیؔ کے لہجے کی گھلاوٹ، تاثیر اور نشتر کی طرح دل میں اتر جانے کی صلاحیت کو نظر انداز کرنا قرینِ انصاف نہ ہوگا۔ یگانہ کی غزل کے چند اشعار یہ ہیں۔

کار گاہ ہستی کی نیستی ہی ہستی ہے

ایک سمت اجڑتی ہے ایک سمت بستی ہے

کیا بتاؤں کیا میں ہوں، قدرت خدا ہوں میں

میری خود پرستی بھی عین حق پرستی ہے

خضر منزل اپنا ہوں، اپنی راہ چلتا ہوں

میرے حال پر دنیا کیا سمجھ کے ہنستی ہے

چتونوں سے ملتا ہے کچھ سراغ باطن کا

چال پرتو ظالم کی سادگی برستی ہے

فانیؔ کی غزل کے یہ شعر اپنی الگ دنیا رکھتے ہیں۔

دنیا میری بلا جانے مہنگی ہے یا سستی ہے

موت ملے تو مفت نہ لوں، ہستی کی کیا ہستی ہے

آبادی بھی دیکھی ہے ویرانے بھی دیکھے ہیں

جو اجڑے اور پھر نہ بسے دل وہ نرالی بستی ہے

جگ سونا ہے تیرے بغیر آنکھوں کا کیا حال ہوا

جب بھی دنیا بستی تھی اب بھی دنیا بستی ہے

آنسو تھے سو خشک ہوئے جی ہے کہ امڈا آتا ہے

دل پہ گھٹا سی چھائی ہے کھلتی ہے نہ برستی ہے

دل کا اجڑنا سہل سہی بسنا سہل نہیں ظالم

بستی بسنا کھیل نہیں بستے بستے بستی ہے

فانیؔ شاعری کے مقصدی، اصلاحی، پیامی یا افادی نظریے کو تسلیم نہیں کرتے۔ اس کے معنی یہ نہیں کہ وہ شاعری کی عظمت پر زور نہیں دیتے۔ آخر عمر میں انہوں نے حیدرآباد ریڈیو سے شعر و شاعری پر ایک تقریر نشر کی تھی جو ان کو سمجھنے کے لئے بہت مفید ہے۔ وہ شاعر کا مشن یہ سمجھتے ہیں ’’کہ وہ زندگی کے اسرار و رموز جو لوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ ہیں، ان پر بے نقاب کردے۔’‘ گویا وہ شاعری کو بصیرت یا عرفان کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں اور ان کے نزدیک یہی اتنا بڑا کام ہے کہ اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

انہوں نے اس تقریر میں کہا تھا، ’’میں نے شاعری کے افادی پہلو سے انکار کیا ہے۔ اس سے میری مراد مادی افادیت ہے۔ اس کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ حقیقی شعر عطیہ فطرت ہونے کے باوجود بیکارِ محض ہے۔ فطرت نے کوئی چیز بیکار نہیں خلق فرمائی۔ مقاصد وجود البتہ جدا جدا ہیں، ایک نہیں۔ چنانچہ حقیقی شاعری کا بھی ایک مقصد ہے۔ حقیقی شعر اہل دنیا کی آنکھوں سے خود ان کی نگاہوں کا حجاب اٹھانے کے لئے خلق کیا گیا ہے۔ جو لوگ دیکھتے ہیں مگر دیکھتے نہیں، انہیں دیکھنے پر مجبور کردینا اس کا مشن ہے۔ اہلِ دنیا کے سامنے دنیا کا وہ رخ جو روشن ہے، مگر محسوس نہیں، جو حقیقی ہے مگر نمایاں نہیں، پیش کردینا شعر کے فرائض میں سے ہے۔ یہ مقصد ظاہر ہے ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ اس میں کوئی ردو بدل ممکن نہیں۔ اس اعلیٰ مقصد پر جو فطرت کے عین منشا کے مطابق ہے، انقلابات عالم کبھی اثر انداز نہیں ہوئے اور نہ ہوسکتے ہیں۔ حقیقی شاعری کبھی زمانے کے ساتھ نہیں بدلتی۔ ہاں زمانے کو کبھی کبھی بدل دیا کرتی ہے۔’‘ (سب رس ریڈیو نمبر)

فانیؔ غزل کے شاعر تھے۔ وہ غزل کے اجمال کو نظم کی صراحت پر ترجیح دیتے تھے۔ ان کی یہ رائے ظاہر ہے یک طرفہ ہے۔ وہ اقبالؔ کے قائل نہ تھے۔ اپنی دنیا میں وہ اتنے سرشار اور مگن تھے کہ انہیں اس دنیا سے نکل کر دوسری دنیاؤں اور ان کی کائنات کو سمجھنے اور ان کا اعتراف کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی تھی۔ مگر فانیؔ اور اقبالؔ میں اختلاف کے باوجود بعض باتیں مشترک ہیں۔ دونوں کے یہاں تصوف سے شغف ہے۔ اقبالؔ کے یہاں کشش بھی ہے اور گریز بھی۔ فانیؔ کے یہاں صرف کشش ہے۔ اقبالؔ بلندیوں کے شاعر ہیں۔ فانیؔ گہرائیوں کے۔ غالبؔ سے دونوں نے فن کا سبق لیا۔ دونوں وصل کے مقابلے میں فراق کے شاعر ہیں اور اس لئے یہ ضروری ہے کہ اس شاعر کے ساتھ بھی انصاف کریں اور اس کا حق اسے دیں۔ جو یہ کہتا ہے۔

اک عمر پرستار شبِ ہجر رہا تھا

اے زلفِ سیہ ماتم فانیؔ میں بکھر جا

فانیؔ کا مطالعہ نہ صرف ادب کی ایک روایت کو سمجھنے کے لئے مفید ہے بلکہ ایک تہذیب کے المیہ اور اس المیے کی آن بان اور اس کے رنگ و آہنگ کو سمجھنے کے لئے بھی اور غزل کے ایک نمائندہ فن کار کے محشر سکوت کو جاننے کے لئے بھی۔ بقول فراقؔ’’فانیؔ کی زندگی گھائل زندگی سہی لیکن ہے وہ بھی زندگی۔ جب وہ مستقبل کی زندگی کو آواز دے گی تو وہ زندگی بھی اس کی آواز پر آواز دےگی۔‘‘

میرے نزدیک اپنے غزل گو معاصرین میں اقبالؔ او ریگانہؔ کو چھوڑ کر فانیؔ سب سے بلند ہیں۔ حسرت، اصغر، جگر، شاد، عزیز، ثاقب سب کو فانیؔ بہت پیچھے چھوڑ جاتے ہیں۔ یگانہؔ اور فانیؔ کا موازنہ بہت دلچسپ ہے۔ فانیؔ زندگی کے شہید ہیں، یگانہ غازی۔ اور شہیدوں کے متعلق غالبؔ کا یہ ارشاد برحق ہے۔

اک خوں چکاں کفن میں بھی لاکھوں بناؤ وہیں

پڑتی ہے آنکھ تیرے شہیدوں پر حور کی

Related posts

Leave a Comment